یہ کتاب یونیورسٹی کی ایک بنیادی دستاویز ہے جسکو پروفیسر ال اویسی نے تحریر کیا ہے .تاکہ ابن طئیمہ یونیورسٹی کا تعارف کرایا جا سکے .اس میں بتایا گیا ہے کہ کن حالات میں تھوڑے زراع سے اپنے ملک سے نکالے گئے فلسطینیوں کے لئے ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا .یہ کتاب ان حقائق سے بھی پردہ اٹھاتی ہے کہ کس طرح سے اساتذہ اکرام اور طلبہ نے اپنے اوپر سے شدید صدمہ کو ختم کیا جو انکو انکے اپنے ملک سے نکالے جانے کی وجہ سے پیش آیا .اور یہ کہ انھوں نے کن مشکلات میں اپنے تعلیمی سفر کو مکمل کیا اور ساری دنیا .کو یہ باور کروایا کہ یہ لوگ دہشت گرد نہیں بلکہ علم کے متلاشی ہیں اس میں ان تحریروں کو بھی بیان کیا گیا ہے جو اس یونیورسٹی نے امام ابن تیمیہ سے لیے؛ میرے دشمن میرے ساتھ کیا کر سکتے ہیں کیونکہ میری قید میرا گوشہ تنہائی ہے، میری جلاوطنی میری تفریح ہے، اور میرا .قتل میری شہادت ہے اس کتاب میں اس یونیورسٹی میں ہونے والے امتحانات کی تفصیل بھی موجود ہے جسکو پوری دنیا کے میڈیا نے کور کیا اس سے اس یونیورسٹی کے لئے ایک لیکچر ہال بنانے میں بھی مدد ملی جسکو اساتذہ اور طلباء نے چٹانوں کی مدد سے مکمل کیا .اس یونیورسٹی کا قیام جنوبی لبنان .میں ڈیپورٹ کیے گئے لوگوں کے لیے بھی ایک امید کی کرن ہے اس کتاب کے مصنف نے اس میں ان تفصیلات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امتحانات کا انعقاد کس طرح کیا جاتا ہے اور اسکے علاوہ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دوسری عرب یونیورسٹیوں سے کس طرح مورل سپورٹ حاصل کی جاتی ہے اور ان سے .تعلیمی شعبہ جات میں کس طرح رابطہ کیا جاتا ہے اس کتاب کے آخر میں بنیادی دستاویزات، ضروری ڈاکومنٹس، سرٹیفکیٹ .اور فوٹگراف بھی لگائے گئے ہیں
|