یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے، یہ دور حاضر میں مسلم امہ سے جڑے مسائل کی بنیادی وجوہات کو بیان کرتی ہے اور مسلم سکالرز اور اسلامی حکومتوں اور انکی کارکردگی پر بھی روشنی ڈالتی ہے .یہ کتاب مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سوالات کو دو حصوں میں پیش کرتی ہے. پہلے باب میں مصر کی پوزیشن کو اس مسئلہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ انکی حکومت، میڈیا اور مختلف پارٹیوں نے پیش کیا .ان میں سے بہتوں نے اس بارے میں کو خاص توجہ ظاہر نہیں کی اور مصر کا مخصوص نشان بلند(واض)کیا .انھوں نے اسکو یہ کہ کر ریجیکٹ کر دیا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور متحد ہونے کی کال پوری نہیں ہو سکتی .مصر کی حکومت اس وقت فلسطین کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتی تھی اور جو بھی انکو سپورٹ کرتا تھا اسکے بھی خلاف تھی اور میڈیا نے لوگوں کے دلوں میں فلسطینیوں کیلئے اٹھنے والی ہمدردی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا .اس کے ساتھ ساتھ مصر کی سیاسی حکمت عملی اور حکومت برطانیہ کی سخت پالیسی نے مصر کو دنیا میں تنہا کر دیا اور اسے اپنی ملکی حدود تک محدود کر دیا .مصر کی شام سے دوری کے نتیجے میں عرب ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور یہ عربوں میں تقسیم کا ایک پہلا قدم تھا .چنانچہ زیادہ رجحان مصر کی قومیت کی طرف ہو گیا .مصر کی برطانوی راج سے آزادی کیلئے قومی تحریک میں مسئلہ فلسطین کو ایک منفی تاثر کے ساتھ پیش کیا گیا اور اسکو انکے مقاصد .کے حصول میں ایک رکاوٹ سمجھا جانے لگا دوسرے باب میں مسلم بھائی چارے کی بنیاد پر فلسطین کے حق میں شروع کی جانے والی تحریک کا زکر کیا گیا ہے .یہ اس وقت کی حکومت کی جانب سے اجازت دئیے بغیر شروع کی گئی تھی اور اس تحریک میں اس مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دلائی گئی .اس تحریک میں مسئلہ فلسطین کو صحیح طور پر اجاگر کیا گیا اورمسلم دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ اس مسئلہ کو جلد از جلد حل کرنا چاہیے .مسلم بھائی چارہ کی تحریک نے مختلف تحاریر، اخبارات اور رسائل میں مضامین شامل کیے اور دنیا کو بتایا کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے اور یہ کہ وہاں پر کس طرح سے اسرائیلی فوج اور حکومت قابض ہو گئے ہیں. اس بات کو ہر خاص و عام مواقع پر حاضرین کے سامنے پیش کیا گیا اور اس طرح سے یہ مسئلہ دنیا کی نظروں میں آگیا .اسکے ساتھ ساتھ اس تحریک کے مقاصد میں یہ بھی ہے کہ عرب ممالک کو اس فورم پر اکٹھا .کیا جائے
|